77سالہ سیاسی سفر؟

وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی

تحریک پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک جمہوری طرز پر چلنے والے ملک کے لیے چلائی گئی تھی،اور اس تحریک کو کامیابی بھی ملی،پاکستان ملا آزادی مل گئی ایک آزاد ملک مل گیا اور ایک قوم بننے کی بنیاد رکھ دی گئی۔

لیکن یہ افسوس ناک امر ہے کہ اس کے بعد ہم ایک قوم بن نہیں سکے۔قائد اعظم اور قائد اعظم کی تحریک کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور شاید ابھی مزید بہت کچھ لکھا جائے گا،

لیکن ملک میں وہ جمہوری طرز کی حکمرانی لائی نہیں جاسکی جس میں کہ ایک شہری کا اختیار ہو تا ہے اور ایک شہری ذمہ دار بھی ہو تا ہے،لیکن 75سال میں ہم اس طرف گئے نہیں ہیں،اس طویل عرصے کے دوران آدھے سے زیادہ دور میں ملک میں ڈکٹیٹر ز کی حکمرانی رہی ہے،

اور اس طویل حکمرانی کے باعث ملک میں بے شمار مسائل پیدا ہو ئے ہیں۔اور بظاہر ابھی تک ملک ان مسائل سے نکل نہیں سکا ہے۔ایک طویل عرصہ تک تو ملک میں ڈکٹیٹر رہے

لیکن باقی کا عرصہ بھی کو ئی مثال نہیں بن سکا اوراگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ نام نہاد جمہوریت پسندوں کی حکومت رہی اور ان ادوار میں بھی عوامی حکمرانی کا تصور جڑ نہیں پکڑ سکا اور یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے

کہ ملک میں جمہوری اقدار فروغ نہیں پاسکیں جمہوری حکومتوں کو کرپشن سے نتھی کر دیا گیا اور عوامی سطح پر اس حوالے سے منظم طریقے سے جمہوریت اور سیاست دانوں کو عوام کے سامنے منفی تاثر قائم کیا گیا،

بہر حال واپس آتے ہیں جمہوری اقدارکی جانب کسی بھی ملک میں اور کسی بھی معاشرے میں جمہوری اقدار کے فروغ میں عدلیہ کا بھی کلیدی کردار ہو تا ہے عدلیہ نہ صرف آئین اور قانون کی محافظ ہو تی ہے

بلکہ جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی محافظ بھی ہو تی ہے۔لیکن ہمارے ہاں ہماری طرز حکمرانی میں عدلیہ کو بھی زیر بار رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے،جو کہ کوئی خوش آئند بات نہیں ہے۔

اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں عدل نا پید ہو تا چلا جا رہا ہے اور ملک میں بے چینی کی کیفیت بڑھتی چلی جارہی ہے۔اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے عوام کا نظام میں اعتماد ہی کسی بھی ریاست کی بنیاد ہو تا ہے اور اگر عوام کو اعتماد ریاست سے کم ہو نا شروع ہو جائے،تو اس ریاست کا چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اور کسی بھی معاشرے یا ملک میں عدل اور انصاف ختم ہو جائے تو وہ معاشرہ پنپ نہیں سکتا ہے اور قوم نہیں بن سکتی ہے اس وقت تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ایک بھیڑ چال چلی ہو ئی ہے اور یہ بھیڑ چال ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے ایک افرا تفری اور انتشار کا موسم ہے،اور ملک میں عدل موجود نہیں ہے۔

اور اگر ہمیں معاشرے کو اس انتشار اور بے سکونی کی کیفیت سے نکالنا ہے تو معاشرے میں عدل اور انصاف کا بول بالا کرنا ہو گا۔اور انصاف کی فراہمی کرنا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا کام نہیں ہے بلکہ جب تک کہ سول جج اور سینئر سول جج کے لیول پر انصاف نہیں ملے گا تو

ملک میں اور معاشرے میں امن قائم نہیں ہو سکے گااور ملک انتشار اور بے یقینی کی کیفیت سے نہیں نکلے گا۔ہم نے شاید عدلیہ کو بھی ایگز یکٹیو کا حصہ سمجھ لیا ہے اور اسی طریقے سے معاملات چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اسی وجہ سے لا قانونیت بڑھ رہی ہے اور عوام ایک قوم نہیں بن پا رہی ہے۔عدل کا ہونا معاشرے کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ہے اس کے بغیر معاشرہ چل نہیں سکتا ہے اور ترقی ہو نہیں سکتی ہے۔

ایک قوم بننے کے لیے عدل لازمی ہے اور میری مراد یہاں پر صرف اور صرف کرمنل جسٹس سے نہیں ہے بلکہ میری مراد سماجی عدل بھی ہے،اور معاشی عد ل بھی ہے۔

اس کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ہے اور ترقی کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی ہے۔یہاں پر ہندوستان کی مثال دی جاسکتی ہے اس کی آزادی ہماری آزادی کے ساتھ ہو ئی تھی،لیکن آج ان کے حالات کا اپنے حالات کے ساتھ تقابل کیا جائے،

تو روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے لیکن یہ بات دیکھنے کی ہے کہ ہندوستان کی عدلیہ نے اپنے ملک کی ترقی میں اور عدل لانے میں کیا کردار ادا کیا ہے؟اگر بغور معاملات کو دیکھا جائے،

تو معلوم ہو تا ہے کہ ہندوستان کی عدلیہ کی جیو ریس پروڈنس (judes prudence)جو رہی ہے،جو بنی ہے اور جو بن رہی ہے اس نے ان کے ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور آج ہندوستا ن بلا شبہ ایک بڑی اقتصادی طاقت بن چکا ہے اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔

آج ہندوستان کا شمار دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں میں ہو رہا ہے۔اور اس کے مقابلے میں اپنا جائزہ لیں تو آج ہم کہاں پر کھڑے ہیں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔حالات کو مل کر بہتر کرنا ہو گا،اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

ہم ہر گزرتے روز کے ساتھ مزید تنزلی کا شکار ہو تے چلے جارہے ہیں۔جب تک کہ سیاسی جماعتیں اپنے اندر وہ کلچر پیدا نہیں کرتی ہیں وہ سنجیدگی پیدا نہیں کرتی ہیں جو کہ ملک کو آگے بڑھانے کے لیے چاہی

ے اس کے بغیر حالات بہتر ہونا ممکن نہیں ہے ایک سیاسی استحکام اور دیر پا پالیسیز کا ملاپ ہو نا چاہیے جو کہ ملک کو آگے لے کر چلے وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے اب اگر کوئی بہتری آنی ہے تو مل کر ہی لانا ہو گی اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں