چینی کی ڈبل سنچری اور بڑھتی سمگلنگ

اکمل شہزاد
Akmal.journalist@gmail.com

ماضی کی طرح سابق حکمران بھی چینی مافیا کے ہاتھوں میں کھلونا بنے اور چینی کو ملک سے باہر فروخت کرنے کی اجازت حاصل کر لی، جس کی وجہ سے ملک میں چینی کی کمی نے اس کے نرخ کو کئی سو گنا بڑھا دیا گیا،

یہ تو پرانی کہانی نئے کرداروں کے ساتھ دہرائی گئی، دوسر ی جانب ملک سے چینی کی بہت بڑی مقدار میں افغانستان اور ملحقہ ملکوں میں سمگلنگ نے بھی ملک میں چینی کی کمی کا بڑا سبب بنی ہے،

چینی کیوں افغانستان سمگلنگ ہو گی و جہ کیا ہے یہ ایک اہم سوال بنتا ہے، ہمارے پیسے کی بانسبت افغان پیسے کی قدر میں اچھا خاصہ فرق پا یا جاتا ہے، کئی دفعہ افغانستان چینی کی ڈیل ڈالروں میں ہوتی ہے اس بھی سمگلر کو فائدہ ہوتا ہے،

پاکستان کے مقابلے میں دوگنا پیسا مل جاتا ہے، دوسری اہم بات افغان حکومت کے آنے کے بعد افغانستا ں میں جن اشیاء کی کمی تھی ان میں ایک چینی بھی ہے جو ابھی تک افغانستان میں نا پید ہے

اس کی مانگ کی وجہ سے پیسے اچھے مل جاتے ہیں، پنجاب سے چینی ٹرکوں چھوٹی گاڑیوں اور بسوں کے ذریعے بلوچستان چاغی پہنچائی جاتی ہے،

کوئٹہ سے روزانہ کی بنیاد پر سو ٹن اور غیر قانونی راستوں سے سات سو ٹن کے قریب چینی افغانستان پہنچائی جاتی ہے، ٹرین کے ذریعے بھی چینی سمگل کی جاتی ہے،

پاکستان سے افغانستان اشیاء خوردونوش جس میں چینی بھی شامل ہے بیس راستوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی جاتی ہے،

اس سامان پر کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں دی جاتی، پاکستان اور افغانستان کی چیک پوسٹوں سے ہوتا ہو ا یہ سامان افغانستان کے آٹھ مختلف صوبوں میں پہنچا دیا جاتا ہے، پاکستان میں پنجاب اور سندھ کے راستے چینی کو کوئٹہ پہنچایا جاتا ہے،

پھر بسوں اور گاڑیوں بھی بھر کر باڈر پر پہنچا دیا جاتا ہے، پاکستان سے قانونی اور غیر قانونی سامان بھجوانے کا راستہ ایک ہی ہے،

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بڑے تاجروں کو باقاعدہ طور پر پرمٹ دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے اور کئی ٹرکوں کو بغیر پرمٹ چیک کئے جانے دیا جاتا ہے،یہ پرمٹ مقامی تاجروں اور ان کی کمپنیوں کو جاری کیا جاتا ہے،

پرمٹ میں ٹرک اور یہاں تک کے ڈرائیوروں کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے، حکومت کسی حد تک سمگلنگ روکنے کیلئے کوشش کر رہی ہے چاغی میں ابھی یہ پرمٹ جاری کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی

لیکن مقامی افراد کے مطابق چاغی کے ساتھ جڑے علاقوں میں پرمٹ پر کوئی پابندی نہ ہے،چاغی، چمن، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، پشین اور یوپ کے علاقے سمگلنگ کے گڑھ بتائے جاتے ہیں،

ان میں چند راستے تو پاک افغان تجارت کیلئے باقاعدہ استعمال کئے جاتے ہیں، واجپائی کا علاقہ ایک عرصے تک افغانستان سے تجارت کیلئے استعمال ہوتا تھا،اب راستے کو بند کر دیا گیا ہے

لیکن غیر قانونی طریقے سے چینی لے جانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، ڈھگ کے ریگستاتی علاقوں کے ذریعے بھی چینی کا افغانستان پہچایا جاتا ہے، چینی کو سمگلنگ کرنے سے لوکل تاجروں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے حکومت کو چاہیے کو چینی کی سمگلنگ کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں،

یہ ایک غیر قانونی کارو بار بنا رکھا ہے، چمن سے بھی اگر کوئی پیدل جانے والے بھی چینی ساتھ لے جائیں تو انہیں بھی نہیں روکا جاتا اس کے باوجود کسٹم حکام سینکڑوں ٹن چینی اور دیگر اشیاء کو روکنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن کچے راستے قانونی کارروائی کرنے میں بڑی مشکل پیدا کرتے ہیں

اگر چینی قانونی طور سمگل کی جائے تو اس میں منافع کی شرع کم ہو جاتی ہے اور ڈرائیور کو تنخواہ اور سکیورٹی بھی دینا پڑتی ہے اس لئے غیر قانونی طریقہ استعمال کر کے زیادہ منافع کما یا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں