محمد علی جناحؒ……لیڈر ایسے ہوتے ہیں

حکیم سید محمد محمود سہارن پوری

hakimsaharanpuri@gmail.com

تاریخ میں مہاتما گاندھی کا یہ جملہ آج بھی محفوظ ہے کہ ”اگر گانگرس کے پاس ایک بھی جناحؒ ہوتا تو برصغیر کبھی تقسیم نہ ہوتا“ قائداعظم ہمارا افتخار‘ ہمارا مان اور ہماری پہچان ہیں افسوس ہم قائداعظمؒ کے پاکستان کو ان کی توقع اور امیدوں کے مطابق اس مقام رشک پر نہ پہنچاسکے جس کی ضرورت قائدین اور محبان پاکستان کرتے رہے۔

ذرا آج کی سیاست اور حکومتی زعماء کی کارگزاری پر اک نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا ہم فکری‘ معاشی‘ نظریاتی اور سیاسی آزادی میں فکر اقبالؒ اور پیغام قائد ؒسے کتنی دور ہیں؟

ہمارے ”محبوب وزیراعظم“انوار الحق کاکڑ فرماتے ہیں کہ بجلی بلوں میں ریلیف دینے کے لیے ہمیں آئی ایم ایف سے اجازت اور منظوری لینی پڑے گی۔

ہمارے”محبوب وفاقی وزیر توانائی“ محمد علی نے چھ ستمبر کو پریس کانفرنس میں بتایا کہ 559 ارب روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے،بجلی چوری روکنے او ر خسارے کی موجودگی میں سستی بجلی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؟

کوئی صاحب عقل وزیر توانائی سے پوچھے کہ بجلی چوری روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ 559 ارب کے نقصان کا ذمہ دار واپڈا ہے یا وزارت توانائی؟

ہم اور ہمارے سیاست دانوں نے پاکستان کو کہاں پہنچا دیا ہے۔ بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ چینی‘آٹا اور انڈے سمیت کون سی چیز ایسی ہے جو غریب کی دسترس میں ہے؟ 11 ستمبر 1948ء کو قائداعظم کی رحلت کے بعد پوری قوم روتی رہی ان کا سوال سو فیصد درست تھا کہ پاکستان اور قوم کا کیا بنے گا؟

اللہ کریم میرے وطن کی خیر کرے اور قوم کو مثل قائد مخلص لیڈر فراہم کردے گا تاکہ آزاد قوم آزاد ماحول میں قومی تعمیر وترقی میں حصہ لے سکے!! دسمبر 1938ء میں قائداعظم نے اعلان کیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت نہیں بلکہ ایک الگ قوم ہیں اور ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ ایک براعظم ہے۔

اس دو قومی نظریہ نے ایک عام ہیجان پیدا کر دیا اور 23مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں مسلمانوں کی قومی جدوجہدکا رُخ واضح طور پر متعین کر دیا گیا۔ پنڈٹ جواہر لال نہرو نے جب یہ اعلان کیا کہ ہندوستان مین صرف دو طاقتیں ہیں ایک کانگریس اور دوسری برطانوی حکومت تو قائد اعظم نے اس کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا طاقتیں دو نہیں بلکہ تین ہیں اور یہ تیسری طاقت مسلمان ہیں۔

آگے چل کر واقعات اور حالات نے اس کی تصدیق بھی کر دی تھی۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے مصیبتیں جھیلیں اور نامساعد حالات کا سامنا کیا مگر یاس و حرماں کا شکار ہو کر کبھی ہمت نہیں ہاری۔

وہ پرامن اور صلح جو شخصیت کے حامل تھے اس لئے بغیر کسی تشددکے برصغیر جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور خودمختار ریاست پاکستان کے قیام کا تاریخی کارنامہ سر انجام دیا۔قائداعظم نے پاکستان کو ایک حقیقت بنانے کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دینے سے گریز نہیں کیا اور اپنی منزل مقصود پا لینے کے چند ماہ بعد انہوں نے جان عزیز جان آفریں کے حوالے کر دی تھی۔

پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلاء تھے مگر معالج سے وعدہ لے رکھا تھا کہ اُن کی علالت کو ظاہر نہ کیا جائے۔ دراصل اُن کو خدشہ تھا اگر وائسرائے کو علم ہو گیا تو وہ تقسیمِ ہند کے اہم معاملے کو التواء میں ڈال دے گا اور ہندوستانی نہ صرف برصغیر کو اکھنڈ بھارت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ اُن کی مسلمانوں پر بالا دستی بھی قائم ہو جائے گی۔

قائداعظم کا خدشہ بعد میں درست ہوا تھا جب اس کا اعتراف ماؤنٹ بیٹن نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اُن کو قائداعظم کی علالت کا علم ہو جاتا تو وہ آزادی ہند کے منظور شدہ ایکٹ پر عمل پیرا ہونے کے فرض کو قائداعظم کی وفات تک التواء میں ڈال دیتے۔

قیام پاکستان کے بعد قائد ا عظم کی صحت لگاتار گرتی چلی گئی۔ ڈاکٹروں کا مشورہ تھا کہ وہ مکمل آرام کریں مگر قومی تعمیر نو سخت محنت کا تقاضا کر رہی تھی۔

آپ باوجود صحت کی خرابی کے قومی معاملات میں بھرپور دلچسپی لیتے رہے۔ اُن کی صحت کی دیکھ بھال کے لئے ڈاکٹروں کا ایک بورڈ تشکیل دیا گیا۔

بستر علالت پر بھی اہم ملکی معاملات کی فائلیں ضرور دیکھتے تھے۔ آخری دنوں میں آکسیجن پر گزارا چلتا رہا اوگیارہ ستمبر 1948ء کو وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں