پْل صراط یا حقیقی شہ رگ

احتشام مجید
sardaraehtshammajeed@gmail.com

راولاکوٹ کو پنجاب سے ملوانے والی سب سے کم مسافت والی سڑک کو سرکاری طور پر شاہرہ غازی ملت(گوئیں نالا روڈ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس سڑک کا کل فاصلہ 36 کلومیٹر ہے جو پہاڑوں کا سینہ چیرتی ہوئی اور مختلف مقامات سے گزرتی ہوئی آزاد پتن کے مقام پر پنجاب سے ملتی ہے۔

جب کبھی سڑک پر سفر کیا جائے تو درجنوں مقامات پر آپ کو ایک بورڈ نظر آئے گا جس پر لکھا ہوگا “سڑک کی مرمت جاری ہے تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہیں ” یہ مقدس فقرہ 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد دیکھنے کو ملا جب ERRA نے اپنے بابرکت ہاتھوں سے اس سڑک کو از سر نو تعمیر کرنے کا ارادہ کیا اور ٹھیکہ ایک نجی کمپنی کو دیا۔

پھر ایک دن یوں ہوا کہ وقت کی تیز رفتاری اور حالات کے پیچ و خم نے اس کمپنی کے حوصلے پست کر دیے اور اکھاڑ پچھاڑ کرنے کے بعد کمپنی نے وہاں سے دم دما کر بھاگنا ہی غنیمت سمجھی۔

ایک سال گزرنے کے بعد ٹھیکہ ایک اور نجی کمپنی کو دے دیا گیا جس نے بروقت کام تو مکمل کر دیا مگر ان کا غیر معیاری کام موسم کی سختی برداشت نہ کر سکا اور چھ ماہ کے اندر ہی سڑک موہنجودڑو جیسے کھنڈرات کا نظارہ پیش کرنے لگی۔ مختصر یہ کہ 2005 سے لے کر اب تک مختلف نجی کمپنیوں کو مختلف اوقات میں اربوں روپے مالیت کے ٹھیک ہے دیے گئے اور اب پانچویں بار پورے زور و شور سے کام جاری ہے۔ موت کا منظر پیش کرنے والی اس سڑک کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے چنا تو اس پر کوئی سائن بورڈ ہے نہ ہی سیفٹی وال اور نہ ہی ریفلیکٹر۔

ایک غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2005 سے لے کر دسمبر 2022 تک اس خونی سڑک میں مختلف حادثات کے باعث 368 افراد نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور سینکڑوں افراد معذور بھی ہوئے۔ ریسکیو کی بات کی جائے تو تمام سہولیات قابل ماتم ہیں۔ فائر برگیڈ ہے، نہ ایمبولنس اور نہ ہی کوئی گائیڈ البتہ ایک بات قابلِ فخر ہے اور وہ یہ کہ مرنے کی صورت میں تمام سہولیات چند میل کے فاصلے پر بہت اسانی سے مل جاتی ہیں۔

وہ تیار کفن کی صورت میں ہو خوشبو ہو یا کچھ اور۔ نماز جنازہ پڑھانے کے لیے امام صاحب بھی بہت اسانی سے مل جاتے ہیں اور جنازے کو کندھا دینے کے لیے چار آدمی بھی۔ سڑک کے کنارے قدرتی چشموں کا پانی اور قدرتی پہاڑ (جو کسی بھی وقت لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں ا کر سینکڑوں لوگوں کو ابدی نیند سلا سکتے ہیں) آزاد کشمیر کی سرکار کی بے حسی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔

ہم آدمی ان اموات کو حادثے کا نام دیتا ہے اور سرکار اسے قدرت کا لکھا کہہ کر بات ڈال دیتی ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ حادثات نہیں بلکہ قتل ہیں اور ان کا قاتل کوئی اور نہیں بلکہ ریاست کہ وہ تمام عہدے داران جو آج تک سڑک کے کنارے ایک سیفٹی وال تک نہیں بنوا سکے اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر آئے روز کسی نئے حادثے کا انتظار کرتے ہیں، پھر اس پر مگرمچھ کے انسو بہاتے ہیں۔ حکومت وقت کی اس سے بھی بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ میں نے آج تک یہ نہیں سنا کے حادثے میں مرنے والوں کے ورثا کے لیے پھوٹی کوڑی ہی دی گئی ہو۔

مرنے والے کے گھر والوں کے حصے میں صرف جھوٹی تسلی اور فوٹوگرافی کے علاوہ آج تک کچھ نہیں آیا۔ کسی نے مرنے والے کے لاوارث بچوں کے لیے اج تک آٹے، دال اور تعلیم کی بات نہیں کی۔ کسی نے زہر کی پْڑیا بھی نہیں دی کہ کھا کر مرنے والے کے ساتھ ہی قبر میں لیٹ جائیں اور اپنا غم دور کر سکیں۔

دراصل سرکار کی اس بے حسی کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ان 368 لوگوں میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں تھا جو کسی وزیر، مشیر، وزیراعظم یا صدر کا کوئی قریبی عزیز ہو۔
اگر سرکہ سے سہولیات کے فقدان کی بات کی جائے تو ان کے پاس صرف اور صرف ایک جواب ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہمارا بجٹ اجازت نہیں دیتا۔

ظاہر ہے بجٹ کس طرح اجازت دے بجٹ کو تو اور بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں۔ صدر ریاست کے لیے 10 کروڑ کی مرسیڈیز خریدنے کے لیے بجٹ تو ہے۔ اپنے آقاؤں کی قبریں پکی کروانے کے لیے بجٹ تو ہے۔ مگر مزدور اور کس سن کی اولاد کو لاوارث موت مارنے سے بچانے کے لیے بجٹ نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم کے لیے مرسیڈیز خریدنے اور چھ آف شور کمپنیاں بنانے کا بجٹ تو ہے۔ سرکاری اخراجات پر وزیروں کی بگڑی اولاد شوق پورا کرنے کا بجٹ بھی ہے۔ کشمیر کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بنانے اور اس کے نت نئے شوق پورے کرنے پھر بے نام وزارتیں دے کر ان کا منہ بند کرنے کے لیے بھی بجٹ ہے۔ پونے دو کروڑ کی Fortuner اشرفیہ کے لیے خریدنے کے لیے بجٹ بھی ہے مگر سیفٹی وال کے لیے بجٹ نہیں ہے۔

ہمارا پڑوسی ملک چاند پر ڈیرے ڈال چکا ہے۔ افغانستان کئی برسوں سے حالت جنگ میں ہے مگر آج اس کی معیشت بھی ہم سے کئی گنا بہتر ہے۔ چین کی ترقی نے دنیا کی بڑی بڑی معیشتوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے اور ادھر ہم ہیں کہ آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پْل صراط کا منظر پیش کرنے والی سڑک کو کبھی شہ رگ کا خطاب دیتے ہیں تو کبھی اٹوٹ انگ کا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں