7ستمبر……یوم تحفظ ختم نبوت کی مہکاریں

بابو عمران قریشی
imran.tanveer@hotmail.com

نبوت کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا۔یکے بعد دیگرے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام ؑ تشریف لائے۔بعض پر آسمانی کتب نازل ہوئیں اور اُن کی علیحدہ شریعت تھی جبکہ بعض اپنے سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کرام ؑ کی کتابوں اور شریعتوں کی پیروی کرتے رہے اور آمد کا یہ سلسلہ حضرت محمد رسول اللہ ؐ پر آکر ختم ہوا۔

آپ ؐ پر قرآن کریم ایک جامع کتاب کی صورت میں نازل ہوا۔ایک ایسی شریعت عطا ہوئی جو ہر لحاظ سے کامل تھی اور اب بھی ہے۔آپ ؐ سے پہلے کی تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا گیا۔آپ ؐ پر دین کی تکمیل ہوئی اسلئے آپ ؐ کے بعد قیامت تک کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔سرکار دو جہاں ؐ سے پہلے جو نبی گزرے وہ صرف ایک قوم یا ایک علاقے کی رہنمائی کیلئے تشریف لائے تھے مگر آپ ؐ کو ایک ایسا رسول ؐ بنا کر مبعوث فرمایا گیا کہ جن کی رسالت تمام بنی نوع انسان کیلئے عام ہے۔

آپ ؐ کا پیغا م عالمگیر اور مخاطب پوری دنیا ہے۔پوری دنیا کیلئے بشیر و نذیر بن کر تشریف لائے۔آپ ؐ کی تعلیمات اور شریعت تمام بنی نوع انسان کیلئے کافی ہے۔جب دین اور شریعت کی تکمیل ہوگئی اور آپ ؐ کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ نے مشعل راہ کی حیثیت اختیا ر کرلی اور کسی نئے نبی کی ضرورت کو باقی نہیں چھوڑا تو ایسے میں کسی نئے نبی کی ضرورت کیونکر محسوس کی جاسکتی ہے۔

حضو رؐ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید کی حفاظت کا خود اللہ نے وعدہ فرمایا ہے۔چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کا ایک ایک حرف نہ صرف کاغذ کے صفحات پر بلکہ حفاظ کے سینوں میں بھی محفوظ ہے۔آپ ؐ کی شریعت کو باقی رکھا گیا ہے جبکہ پہلے کی شریعت اصل صورت میں آج موجود نہیں ہے۔حضوراکرم ؐکی شریعت محفوظ ہے اور آپ ؐ قیامت تک کیلئے نبی اور رسول ؐہیں۔

عقیدہ ختم نبوت ایک مسلمان کے ایمان کا جزو لا نیفک ہے جس کے بغیر باوجود دوسرے تمام نیک اعمال کے ایک انسان مسلمان ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔عقیدہ ختم نبوت کو قرآن حکیم احادیث نبوی ؐ کی روشنی میں بخوبی جانچا جاسکتا ہے۔سورۂ الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔”لوگو!محمد ؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں مگر وہ اللہ کے پیغمبر اور خاتم الانبیاء ہیں“۔

ختم عربی زبان کا لفظ ہے جس کے بہت سے معانی ہیں مثلا مہر لگانا۔یعنی ایسی مہر لفافے پر لگانا کہ پھر اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی جاسکے یعنی سر بمہر کرنا بند کرنا آخر تک پہنچانا کسی کام کو پورا کرکے فارغ ہوجانااور خاتم النبین کے معنی آخری نبی کے ہیں۔

حدیث پاک میں ارشاد نبوی ؐ ہے۔”بنی اسرائیل کی رہنمائی انبیاء کرام کیا کرتے تھے جب ایک نبی وفات پاجاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتامگر میرے بعد کوئی نبی نہیں“ایک دوسری حدیث میں آپ ؐ نے فرمایا”میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص نے عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کنارے میں اینٹ کی جگہ خالی چھوڑدی اور وہ آخری اینٹ میں ہوں اور میں ہی آخری نبی ہوں“(بخاری و مسلم)حضور ؐ کا فرمان ہے ”لا نبی بعدی“میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔

حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ ؐ نے فرمایا”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ بن خطاب ہوتے لیکن میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں“(ترمذی) حضور ؐ نے حضرت علی ؓسے فرمایا”کہ تم اس بات پرراضی نہیں ہو کہ میرے ساتھ ایسے ہو جیسے موسیٰ ؑ کے ساتھ ہارون ؑ نبی تھے(نبوت کا لقب آپ کو نہیں مل سکتا)میرے بعد نبوت نہیں“(بخاری و مسلم)حضرت عباس ؓ نے مسلمان ہوکر ہجرت کی اجازت چاہی تو آپ ؐ نے فرمایا”اے چچا اپنی جگہ ٹھہرے رہو اسلئے کہ تم پر اللہ تعالیٰ نے ہجرت ختم کی ہے جس طرح مجھ پر نبوت ختم کردی ہے“(طبرانی) حضرت ثوبان ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضو ر ؐنے فرمایا”میری اُمت میں تیس جھوٹے پیدا ہونگے جن میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا“(مسلم) خود سرکار دو جہاں ؐ کے زمانے میں اسود عنی نامی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا جسکو نیست و نابود کردیا گیا۔

حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے نبوت کاذبہ کا دعویٰ کرنے والے مسلیمہ کذاب کو کافر قرار دیکر چڑھائی کی۔اس جہاد میں 1200 صحابہ کرا مؓ شمع رسالت پر نثار ہوگئے اور اس فتنہ کا قلع قمع کردیا۔

آپ ؓ کے دور خلافت میں ہی طلیحہ نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا۔حضر ت خالد بن ولید ؓنے اس کو ختم کرنا چاہا مگر وہ شام کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہوگیااور پھر وہاں روپوش ہوگیا۔خلیفہ عبدالمالک بن مروان نے حارث نامی جھوٹے نبی کو جہنم رسید کیا تھا۔جس طرح انبیاء کرام ؑ کی توہین کرنا کفر ہے اُسی طرح حضو ر ؐ کے بعد کسی نبوت کو ماننا یا جائیز سمجھنا بھی کفر ہے سوائے حضرت عیسیٰ ؑ کے دوبارہ نزول کے عقیدے کے کیونکہ وہ آپ ؐ سے پہلے بطور نبی تشریف لا چکے ہیں۔

بر صغیر پاک و ہند میں نبوت کاذبہ کا دعویٰ کرنے والے مرزا غلام احمد کی پیدائیش قادیان ضلع گورداس پور میں ہوئی۔فارسی،عربی اور طب کے علوم کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد پہلے سرکاری ملازمت اختیار کی پھر اپنے والد کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا۔ روحانی خواص طبع اور عادات وغیرہ کا مالک،ایک قدم آگے بڑھاکر حیات مسیح کو غلط اور وفات مسیح کو صحیح قرار دیکر خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔تقریباً دس برس بعد ترقی کرتے ہوئے ظل نبی کا دعویٰ کیا اور نومبر 1901؁ میں “حقیقت الوحی” میں حضور ؐ کی شان میں نازل ہونے والی قرآنی آیات کو اپنی طرف منسوب کرکے اپنی نبوت کا باقاعدہ اعلان کردیا۔

مزیدآنکہ وحی الہامات پیش گوئیاں کشف کے دعوے کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے ہر اصول پر اختلافات شروع کردیئے۔روح انسانی یوم الدین کے مسئلہ پر اختلاف کیا۔

جہا د بالسیف کو حرام قرار دیا۔حضو رؐ کے معراج جسمانی سے انکار کیا۔انبیاء کرامؑ کی توہین کی۔جھوٹی نبوت کو نہ ماننے والوں پر کفر کا فتویٰ جاری کیااور رام کرشن کو بھی نبیوں میں شمار کیا۔حاشیہ حقیقت الوحی صفحہ نمبر 72 اور نزول المسیح صفحہ نمبر 4 پر لکھاکہ ”میں آدم ؑ ہوں۔شیث ؑ ہوں۔نوح ؑ ہوں۔ابراہیم ؑ ہوں۔اسحاق ؑ ہوں۔یعقوب ؑ ہوں۔یوسف ؑ ہوں۔موسیٰؑ ہوں۔داؤد ؑ ہوں۔عیسیٰ ؑ ہوں۔حضو ر ؐ کے نام کا مظہراتم ہوں۔

یوں ظلی طور پر میں محمد اور احمد ہوں۔“نزول مسیح صفحہ نمبر 196 پر لکھا کہ ”محمد ؐ میں اور ہمارے میں بڑا فرق ہے کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے“

مرزا غلام احمد کی تحریر و تقریر
میں اسقدر تضاد تھا اور اتنی قلابازیاں کھائی تھیں کہ کوئی بھی ذی عقل مسلمان یقین کرنے کیلئے تیار نہ تھا۔ایک ہی شخص حضرت آدم ؑ سے لیکر حضور ؐ تک خود کو نبی ظاہر کرے تو وہ نفسیاتی مریض تو ہو سکتا ہے مگر نبی نہیں ہوسکتا۔نبوت چند پیشگوئیوں یا الہاموں کا نام نہیں ہوتابلکہ سچا دین وہ ہے جو کتاب اللہ حدیث نبوی ؐ اجتہاد سلف اور اجماع اُمت ان چار ذرائع سے حاصل ہو۔نبوت ایک ارفع اور اعلیٰ مقام ہوتا ہے اسلئے دعویٰ نبوت اس نوعیت کا تھا کہ پوری امت مسلمہ پر ایک شدید رد عمل ہونا لازمی تھا۔

چنانچہ ہر مکتبہئ فکر کے اہل دانش علماء کرام اور بزرگان دین مخالفت میں اُٹھ کھڑے ہوئے جن میں سید عطااللہ شاہ بخاری۔مولانا ثنااللہ امرتسری۔مولانا ظفر علی خان۔علامہ اقبال۔ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی۔مولانا محرم علی چشتی۔اور قاضی سراج دین کے نام قابل ذکر ہیں۔

اپنے وعظوں تقریروں اور تحریروں سے امت مسلمہ کو جعلی نبی کے جال میں پھنسنے سے روکا گیا۔یہی وجہ تھی کہ باوجود انگریزوں کی سرپرستی اور ذرائع ابلاغ کی سہولت کے قادیانیت کی تبلیغ بالکل بے اثر ہوگئی۔افغانستان میں دو قادیانیوں پر جب سے حد ارتداد جاری ہوئی ہے اب احمدی تبلیغی مشن اسلامی ممالک کی بجائے یورپین اور افریقی ممالک میں خود کو نام نہاد مسلمان ظاہر کرکے احمدیت کے پرچار میں لگے ہوئے ہیں۔

کاش ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ہمارے علماء کرام مسلکی اختلافات میں الجھنے کی بجائے بین الاقوامی سطح پر قادیانیت کے چیلنج کا مقابلہ کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں